دارالعلوم چورو کا قیام و پشِ منظر
صوبہ ؤ راجستھان جہالت اور بے دینی میں مشہور تھا وہ کسی اہل بصیرت کی نظر میں پوشیدہ نہیں ، یہ وہ علاقہ ہے جو شرک و بدعت کی گھٹاپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، ہرطرف تاریکی ہی تاریکی ، جہاں غیروں کی عرصہ دراز تک حکومت رہنے کی وجہ سے مکمل طور پر مسلمان ان میں جاملے تھے، چنانچہ ہولی دیوالی تو یہاں کے مسلمانوں کا گومذہبی تہو ہار بن گیا تھا، جنازے اور کفن دفن کے لئے دور کئی شہر سے اگر کوئی مل جاتا تو لے آتے ، ورنہ گیروں کی رسومات کے مطابق جلا کر راکھ کو دریا کے بہاؤ کے سپر د کر دیا جا تا تھا، جہاں اسلامی اعمال واطوار یا تو سیر سے نابود تھے یا پھر اگر تھے تو بدعات ورسومات کی نظر ہوکر اصل صورت ہی مسنح کر بیٹھے تھے،
جہاں دین اور اسلام پنڈتوں اور قبروں کے مجاوروں کو ہدیہ اورنز دو نیاز دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں سمجھا جا تھا۔ ایک ایسی ظلمت کدہ اور تاریکی میں گھیرے ہوئے علاقہ کو اسلام کی روشنی اور حقیقت اسلام سے متعارف کرانے کے لئے یہاں کے باشندوں کو دین اسلام سے آشنا کرنے اور حقیقت سے قریب کرنے کے لئے اسلام کا صحیح نقشہ پیش کرنے کے لئے ایک مرد مجاہد ولیٔ کامل حضرت مولانا مفتی مصطفیٰ صاحب مفتاحی ؒ انجام سے بے پروہ ہوکر اسلام کی نشر و اشاعت اور بدعت کا قلع قمع کرنے کے لئے ۱۴۰۷ھ مطابق ۱۹۸۷ء میں ایک روشن مینار کی بنیاد ڈالی،
جس کو
جامعہ عربیہ اسلامیہ دارالعلوم چورو
کے نام سے یاد کیا جا تا ہے ۔اس کی وجود میں آتے ہی بدعت کانپنے لگی دشمنانِ اسلام کے سر پر خطرات منڈلانے لگے، یہ مینارا پنی روشنی سے علاقہ والوں کو منور کرنے لگا بدعت و جہالت اپنی جگہ چھوڑ نے لگی، یہاں کے باشندوں کو صحیح صورتِ حال معلوم ہونے لگی ، جامعہ ہذا نے بے دینی کا صفایا کرنے میں انتھک کوشش کی جسکی بنا پر کئی خارزار جھاڑیوں اور سنگ لاخ وادیوں سے گرنا پڑا۔ابتدائی حالات میں مدرسہ کے طلبا ء اور اساتزہ بسا اوقات دو وقت کے کھانے کو ترس جاتے تھے لیکن موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی ہارون علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ابو بکر صدیق کو پیدا کر نے والے اللہ نے یہاں بھی چندمخلس احباب کو تیار کر دیا جو ہر موڑ پر دارالعلوم کا ساتھ دینے لگے، ہر مصیبت میں کام آنے لگے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس مینار کی روشنی مند پڑ گئی ، اس کی توانائی ختم ہوگئی ، یہ درخت مرجھا گیا ،اور یہ ویران اور بند ہوکر رہ گیا
پھر ۱۹۹۲ء اور /۹۴ کے بیچ میں مخلص اور مفکر حضرات نے اپنی کوشش اور محنت سے واپس شروع کیا، اور الحمد للہ آج اس مقام پر کھڑا ہے کہ کئی سو کی تعدادکوقرآن کی تعلیم سے آشنا کیا، کئی دہائیوں کی تعداد کو حفظ کی دولت سے مالا مال کیا اور آج ایک مضبوط تناور درخت کی شکل اختیار کر لی ہے
جس میں دینیات ،حفظ اور عالمیت کی تعلیم ابھی تک جاری وساری ہے
دعا ہے اللہ تبارک وتعالی اس مینار کو اس جامعہ کو بلند و بالا رکھے، اس درخت کو پھلا پھولا رگھے اور مکمل طور سے اس کی حفاظت فرمائے
والسلام